کھوٹی قسمت

کھوٹی قسمت
اعظم میاں خالی صفحاف پر قلم بیچھائے گہری سوچ میں محو تھے وہ کچھ ایسا لکھنا چاہتے ہو جو کہ واقعی ایک مکمل تحریر ہو، ویسے طبقاتی نہ ہمواریوں پر تو بہت لکھا جاچکا تھا وہ اب انسان کو مظلوم بنا کر نہیں پیش کرنا چاہتے تھے لیکن یہ بھی ایک حقیقت تھی۔ اعظم صاحب کے مفرضیات تھوڑے مختلف تھے وہ یہ ماننے کیلئے تیار نہ تھے کہ انسان پیدائشی ملزوم ہوتے ہیں اُن کے خیال میں ہر انسان یکساں مواقع اور صلاحیتیں لے کر پیدا ہوتا ہے پر اگر اُس کا اختمام انہی کے ساتھ ہوتو اس میں قسمت کا رونا صرف کمزور افراد کے لئے راہِ فرار ہے۔
اسی اثناہ میں دروازے ہر صدا ہوتی ہے بابو ایک روپے کا سوال ہے، اعظم میاں کا سارا دہاں بٹ کے رہ گیا اور چلاتے ہوئے بولے جاؤ بابا تنگ نہ کرو، بابا مسلسل ایک ہی صدا لگائے جارہا تھا، اعظم صاحب نے دس روپے نکالے اور دروازہ کھول کر تھمانے چاہے تو بابا نے ہاتھ کھینچ لیا نا باؤ جی ایک روپے سے زیادہ نہیں۔ بابا جی میں کم نہیں دے رہا۔ نہ صاب جی ضرورت سے زیادہ مل جائے تو انسان بخیل ہوجاتا ہے، بابا جی نے ایک دو تین گنتے ہوئے پورے نو سکے اعظم صاحب کے ہاتھ پر رکھ دیے اور چل دیے۔
ایک انسان کی قیمت صرف ایک روپے؟ صرف ایک روپے؟ شائد ہر انسان کی ایک قیمت ہوتی ہے بس خریدار ہونا چاہیے میری کیا قیمت ہے؟ اعظم صاحب کو اپنا پن آج بہت ہلکا لگ رہا تھا۔ اعظم صاحب آنکھیں بند کئے بیٹھے تھے کہ اُن کی بیگم کی آواز نے چونکا دیا، ملک جی عظیم صاحب اور اپکےلاہور والے دوست احمد آئے ہیں میں نے اُن کو مہمان خانے میں بیٹھا دیا ہے آپ انہے دیکھیں میں چائے بناتی ہوں۔ اعظم صاحب کے مہماں خانے میں جاتے السلام و علیکم کی بے تکلف آوازیں گونج گئی، سلام و دعا کے بعد گلے لگایا اور ایک دوسرے کے حال احوال پوچھتے رہے۔
اعظم صاحب بولے احمد تم تو اپنے شہر کو بھول ہی گئے ہو کبھی کبھار آ جایا کرو ماضی سے پیچھا چھوڑانا اتنا اسان نہیں ہوتا۔ جی اعظم صاحب کوشش تو ہوتی ہے پر مصروفیات ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتیں۔ آپ سنائیں رٹائر منٹ کی لائف کیسی گزر رہی ہے؟ احمد تمھے پتا ہے اعظم صاحب لکھتے بھی ہیں۔ عظیم میاں لکھنا کیا ہے بس ایک کوشش ہی ہے, لکھاری بس تھوڑا حساس واقع ہوتا ہے۔ اعظم صاحب بچوں کی سنائیں؟ یار وہ تو پڑھائی میں ہی مصروف رہتے ہیں اور بیٹی نے بارہ جماعتیں پاس کر لی ہیں۔ ہم تو اب بوڑھے ہوگئے ہیں وقت تو اب اِن بچوں کا ہے۔ یار مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی جب ہم اپنے ہنر میں پختہ ہوجاتے ہیں تو ہمیں ایک معاشرتی بوجھ کی طرح اتار کیوں دیا جاتا ہے؟ اعظم صاحب ہماری جوانی اِن بچوں میں ڈھل گئی ہے اور یہ پاکسان کی تقدیر ضرور بدلیں گے۔ 
چھوڑ یار عظیم اب تو قائد اعظم بھی ہمارے زہنوں میں بہت دھوندلےہوگئے ہیں بھلا ہو گورنمٹ کا جو نوٹ پر اُن کی تصویر باقی ہے کہکہے سے ماحول خوشگوار ہوگیا۔ چل یار احمد آج تو بڑی دیر بعد آیا ہے وہی اللہّٰ بخش کی دکان پر چلتے ہیں اُس کی دودھ پتی سے ساری یادیں تازہ ہوجائیں گی۔ بس یار یہ یادیں ہی ہیں جو زندگی کا سہارا ہیں، اپنی جوانی سے ملک بدلنے اور انقلاب کی سنتے ہم بوڑھے ہوگئے ہیں اور یہ اقتدار بھی کسی بادشاہت کی طرح تقسیم در تقسیم ہوئے جارہا ہے، ہم غیروں کی مثالیں تو بڑے فخر سے دیتے ہیں پر اپنے حال کو قسمت کا لکھا سمجھ کے جئے جارہے ہیں۔
یونہی باتیں چلتی رہیں ۔
اللہّٰ بخش دیکھ آج کون آیا ہے؟ اپنے احمد صاحب کو بھی تیری یاد آ ہی گئی۔ اللہّٰ بخش گرم جوشی سے بولا واہ واہ آج تو پھر خوب بیٹھک ہوگی۔ اللہّٰ بخش آج وہ پورانی والی دودھ پتی لا۔ ابھی لایا آپ بیٹھیں۔
اعظم تم اقتدار کی وراثتی تقسیم کی بات کر رہے تھے پر اب وقت بدل گیا ہے نیا پاکسان بنے گا ہمارے بچے بھی پیارے وطن کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں گے، ہم بھی فخر کے ساتھ اپنا پاسپورٹ پیش کریں گے اور یہاں بھی لوگ نوکریاں ڈھونڈنے آئیں گے۔پاس بیٹھا ایک باؤ ہماری گفتگو میں خلل کی طرع ہماری میز پر آ بیٹھا اور بولا آپ کا وہم ہے کہ کچھ بدل جائے گا ہم اسی سلوک کے قابل ہیں کچھ نہیں بدلے گا ہم نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا اور ایک محکوم قوم کی طرع ہمیشہ غیروں کے سامنے جھکتے رہیں گے وہ کہہ توسچ ہی رہا تھا ہمیں شائد ضرورت سے زیادہ مل گیا ہے اور ہم نہ شکرے ہوگئے ہیں ہمیں اپنا ہاتھ کھینچنا ہوگا ۔ وہ باؤ بڑا بھلا معلوم ہوتا تھا اُس کے جانے کے بعد بھی اُس کی باتوں کا اثر ہماری محفل میں باقی تھا۔
تھوڑی دیر بعد اللہّٰ بخش آیا اور بولا باؤ جی وہ آپکا دوست چلا گیا؟ ہم حیرانگی سے ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ وہ مجھے کہہ رہا تھا پانچ سو روپے کا کھلا دینا میں پانچ سو ابھی دیتا ہوں۔ اعظم صاحب نے زور کا کہکہا لگایا اور بولے سب بکواس ہے یہاں کچھ نہیں بدلے گا۔
مصنف نصیراحمد


Comments

Popular posts from this blog

iPhone X

اسباب زندگی

Bluewhale