اسباب زندگی

اسبابِ زندگی
اعظم صاحب کو ریٹائرڈ ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے وہ بے ترتیب زندگی کو ترتیب دینے کی ہر ناکام کوشش سے اضطراب کا شکار ہوتے جارہے تھے آج بھی ٹیبل پر اخبار کو بچھائے صفحات کو پلٹ پلٹ کے نہ جانے کیا ڈھونڈ رہے تھے جس کا شائد انہے بھی معلوم نہ تھا کبھی کمرے میں پڑے بے ربط سامان کو سلجھاتے تو کبھی مصروفیت کا کوئی کام ڈھونڈ لیتے، اعظم صاحب ایک سرکاری افسر تھے اور سال ہا سال پر محیط افسری کی یادیں تھی کہ پیچھا ہی نہ چھوڑتی تھی۔ اعظم صاحب کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی سب اپنی زندگی میں مشغول تھےیا شائد انہوں نے خود کو الگ کر لیا تھا۔
گھڑی پر چار بجتے ہی ان کی چیخ گھر میں گونج گئی چائے کہاں ہے بیگم صاحبہ دوڑتے ہوئے چائے بنا کر لائیں، تو اعظم صاحب یادوں کے سحر میں کھو گئے اور چائے کہ پڑے ہی ٹھنڈی ہوگئی، ٹھنڈی چائے پینا انکی عادت کے خلاف تھا سر جھٹکا اور یونہی خود کے سنبھالتے ہوئےگھر سے باہر نکل گئے۔ وہ آہستہ آہستہ چلے جارہے تھے اور ارد گرد نظریں دوڑاتے جاتے اور وقت کے ساتھ آئی تبدیلی کا نقشہ کھینچتے جاتے انہے آج سب کچھ نیا لگ رہا تھا یا شائد یہ وہ شہر نہ تھا جس میں اُن کا بچپن گزرا تھا اور سارےچہرے بھی بدلے بدلے تھے وہ ان میں اشنا چہرے ڈھونڈتے رہے اور چلتے چلتے پرانے سٹیشن کے بنچ پر جا بیٹھے۔
آج دور جدید نے ٹیلی فون ، انڑنیٹ اور گیمز سے مصروفیت تو بنا دی تھی پر اپنے اپنوں سے دور ہوگئے تھے اعظم صاحب دور جدید کی اِن مصرفیات سے عاری تھے وہ بنچ پر بیٹھےتو انہے اپنے دوستوں کی خوش گپیاں یاد آگئیں، وہ وقت بھی کتنا اچھا تھا گھنٹوں چائے کی چسکیاں لگانا اور پٹڑی پر چلنا کتنا اچھا لگتا تھا پیسوں کی تو کمی تھی پر خوشیوں سے مال ومال تھے اچانک ایک کوتوال نے انکے کندھے کو ہلا دیا ، انکل جی اپنے کہاں جانا ہے اعظم صاحب نے ہاتھ سے نا کا اشارہ کیا اور اُٹھ کے چل دیے۔
صبح ہوتے انہوں نے ناشتہ بھی نہ کیا اور باہر چل دیے، تھوڑی ہو دور اُن کے ایک دوست عظیم صاحب کا گھر تھا، اُن کے گھر پہنچے تو عظیم صاحب اپنے پوتے کی سائیکل کو دھکا لگا رہے تھے اور خوشی سے نہال ہوئے جارہے تھے، کچھ سانس بہال ہوئی تو اعظم صاحب کے پاس آ بیٹھے۔
اعظم صاحب بے تکلفی سے بولے عظیم میاں اس بھاگم بھاگ میں کچھ ہل ہلا گیا تو بستر پر پڑھ جائیں گے، اعظم میاں اب ان کی خوشیوں میں ہی ہماری خوشیاں ہیں، میں نے اب اپنی زندگی کی ترتیب اپنے بچوں کے ساتھ جوڑ دی ہے اور ہر اُس چیز کے لئے خوش ہوں جو میرے پاس ہے اور جو نہیں اُس کی جستجونہیں کرتا اور مزے کی زندگی جئے جارہا ہوں۔ عظیم صاحب سمجھا نہیں۔میرے دوست ہم میں سے اکثر ۹۹ رب کی عنائتوں کو چھوڑ کر ایک نعمت کی محرومی کے احساس کو دل میں بسا لیتے ہیں اور ہماری زندگی ایک گِلا بن کے رہ جاتی ہے، خوشی چیزوں میں نہیں رویوں میں ہوتی ہے، ہمارے رویے ہی خوشی بانٹتے اور سمیٹتے ہیں۔
اعظم تم نے کبھی سوچا ہے ہمارے والدین ہر اُس چیز کو گھر میں جگہ دیتے تھے جو ہمارے پسند سے ہوتی تھی اور ہماری آرا کو اہمیت دی جاتی تھی اب ہم کیسے اپنی زندگی کو خود ترتیب دے سکتے ہیں ؟ 
اعظم صاحب اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کسی سوچ میں محو ہو گئے شائد انہے خوشی کا راز مِل گیا تھا۔
اعظم میاں کیا ہوا؟ کن سوچوں میں ہیں؟ ہممم کچھ نہیں مجھے کام یاد آگیا اور وہاں سے گھر کے لئے روانہ ہولئے۔ گھر پہنچ کر سیدھا چھوٹے بیٹے کے کمرے میں بے تکلفی سے جا کے بیٹھ گئے، بیٹے سے خوش گپیاں لگاتے رہےاور اعظم صاحب کے کہکہوں کی آواز سارے گھر میں تھی اور وہ ٹھنڈی چائے کو بھی چھسکیاں لے کر پیتے رہے۔
مصنف نصیراحمد

Comments

Popular posts from this blog

iPhone X

Bluewhale